ishq mann ajizam by Mannat shah episode 1

ishq-mann-ajizam-mannat-shah-eoisode1

ishq mann ajizam by Mannat shah episode 1

Mannat shah is the brilliant writer and has written a lot and marvelous creation In field of Urdu novel. Her new novel is coming on her official age on fb mannat shah writes. Here w are sharing the ishq man ajizam by mannat shah episode 1

Ishq mann ajizam by Mannat Shah episode 1

تلاش اس کو ناکر بتوں میں۔۔۔ 

وہ ہے بدلتی ہوئی رتوں میں۔۔۔۔ 

جو رات کو دن اور دن کو رات بنا رہا ہے۔۔۔ 

وہی خدا ہے وہی خدا ہے۔۔۔۔۔ 

سامنے دو برفانی پہاڑ تھے۔۔۔ برف سے ڈھکے ہوئے ہر طرف ہو کا عالم تھا۔۔۔  رات کی تاریکی دن میں بدل رہی تھی۔۔۔ علی الصبح کا وقت۔۔۔۔۔ 

 وہی صبح جس کے بارے میں قرآن پاک میں ذکر ہے کے وہ سانس لیتی ہے۔۔ 

والصبح اذا تنفس۔۔۔ 

(تکویر آیت 18) 

قسم ہے صبح کی جب وہ گہری سانس کے۔۔۔۔ 

اس وقت وہ صبح کی گہری سانس کو اندر تک محسوس کر رہی تھی۔۔۔ اس کے رونگھٹے کھڑے ہو رہے تھے دل دھڑکتا تھا اور یک لخت بند ہو جاتا تھا۔۔۔ آسمان سے گرتی برف نے اس کے وجود کو ڈھک دیا تھا اور وہ بے جان بیٹھی تھی۔۔۔ 

اس کے کانوں میں کسی نے صور پھونکا تھا۔۔۔ محبت کا صور۔۔۔۔ 

تم نہیں جانتی علیہا مگر میں جانتا ہوں محبت میں ہی تو لاڈ اٹھائے جاتے ہیں یقین نہیں آتا تو سورۃ الضحی کی تلاوت دوبارہ کر کے دیکھنا۔۔۔۔ 

اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔۔۔۔۔ وہ بے بس تھی محبت کی لا چاری کے اس دھانے پر کھڑی تھی جسے اس نے ہر چیز کے عوض رسوا برباد اور پھر اپنے ہی ہاتھوں مات دے دی تھی۔۔۔۔ 

کیا کوئی انسان اس حد تک بے ضمیر اور نفس پرست ہو سکتا ہے۔۔۔ صبح نے گہری سانس لے کر سوال کیا تھا۔۔۔؟ 

کیا کوئی بے عیب ہو سکتا ہے۔۔۔ اس نے خود سے سوال کیا تھا۔۔۔؟ 

کیا کوئی عیب دار بے عیب نہیں ہوسکتا محبت تو معراج ہوتی ہے پستیوں سے بلندیوں کا سفر۔۔۔۔ پھر بلندیوں سے پستیوں کا سفر ہم کیوں کرتے ہیں۔۔۔؟؟ 

اس نے دیکھا تھا اس نے سنا تھا۔۔۔ اس کا دل زلزلوں کی زد میں آیا تھا۔۔۔ ٹکرایا تھا کانپا تھا۔۔۔ 

جب اس نے اس گہری سانس لیتی صبح کی بھرائی آواز کو محسوس کیا تھا۔۔۔ جو اس کے حال پر غمناک تھی۔۔۔۔  

جب سب ہمارے حق میں اچھا کرنا چاہتے ہیں تو ہم کیوں اپنے حق میں برا کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔۔۔۔  

وہ ہمکلام تھی خود سے؟؟ 

نہیں۔۔۔۔۔ محبت سے؟؟؟؟ 

نہیں۔۔۔۔ خدا سے۔۔۔؟؟؟ 

نہیں۔۔۔۔ گہری سانس لیتی صبح سے۔۔۔؟؟؟ 

نہیں۔۔۔۔ سامنے شان سے سینہ تانے کھڑے ان دو پہاڑوں سے۔۔۔۔؟؟؟ 

یا پھر اس کے سامنے منوں برف تلے دفن وجود سے۔۔۔۔ 

اس نے سوجھی پلکوں کی باڑ نیچے گرائی تھی۔۔۔۔ گھٹنوں کو بلے بیٹھی سامنے پڑے لال رومال کو دیکھ رہی تھی جس کے نیچے وہ دفن تھا۔۔۔ 

اس نے اس لال رومال کو اپنے ہاتھ میں پکڑا تھا۔۔۔۔ مگر یہ ہاتھ ٹھنڈ کی وجہ سے اس قدر اکڑ  چکے تھے کے خون کی گردش رک گئی تھی وہ پچھلے تین گھنٹے سے وہاں بیٹھی تھی۔۔۔۔ 

اور اب وہ بھی تو قریب المرگ تھی۔۔۔۔ نہیں وہ تو تین گھنٹے پہلے مر چکی تھی۔۔۔ اب تو بس جسم اور جان ک یہ بے وفائی باقی تھی۔۔۔ حیات کی تدفین۔۔۔ 

اس نے نیچے جھک کر اپنے لب اس برف کے سینے پر رکھے تھے۔۔۔۔ 

“میرے لیے وہ وقت وہ لمحہ میرا کل اثاثہ ہو گا جب علیہا اذہان حیات ملک اپنی رضامندی اور خوشی سے میری محبت کی تکمیل کرے گی۔۔۔” 

اس کے کانوں میں اس کی گہری متاثر کن آواز کا پھر سے صور پھونکا گیا تھا۔۔۔۔ 

ض۔۔۔ض۔۔۔ ضارب۔۔۔ تھرتھراتے خشک ہوتے سفید لبوں نے چار لفظوں پر محیط ایک لفظ ادا کیا تھا۔۔۔ وہ اس کے پہلو میں لیٹ گئی تھی۔۔۔۔ 

اس کے لیٹتے کتنے انچ برف میں اس کا وجود دھنس گیا تھا۔۔۔  

کبھی کسی نے اپنے ہاتھوں سے خود اپنی قبر نہیں کھودی تھی۔۔۔ اس لڑکی کی بے بسی کی انتہا یہ تھی کے وہ اپنی قبر پر اپنے ہاتھوں سے مٹی ڈال رہی تھی۔۔۔ 

اب اس کی اس ذمین اس دنیا میں کوئی جگہ نہیں تھی اب یہ دنیا بھی اس کی نہیں تھی۔۔۔ 

کیوں کے اس نے اس دنیا کو اس ایک شخص سے الگ کر کے ویران کر دیا تھا۔۔۔خود پر برف ڈال ڈال کر اس نے ایک آخری کانپتا لڑکھڑاتا سانس ہوا کے سپرد کیا تھا۔۔۔۔ اور پھر اپنے چہرے کو بھی ڈھک دیا تھا۔۔۔ 

دائیں آنکھ کی پُتلی بند ہوئی تھی۔۔۔ 

اور جس بے بس ماں کی جھلک آخری بار اس کی آنکھوں کے سامنے عیاں ہوئی تھی اس کا نام فجر اذلان حیدر شاہ تھا۔۔۔۔ 

💜💜💜💜💜💜💜💜 

علیہا مت جاؤ یار تم تو چلی جاؤ گی اور میں بری طرح پھنس جاؤں گی۔۔۔۔ پلیز یار بات سمجھنے کی۔۔۔۔ 

تو تم مجھ سے پیار نہیں کرتی رائٹ۔۔۔ علیہا نے اس کی بات درمیان سے ہی کاٹ دی تھی۔۔۔ 

میں نے ایسا کب کہا۔۔۔۔ اذنا نے پریشانی سے کہا تھا۔۔۔ اپنا لب کاٹتے۔۔۔ 

کہا نہیں تو ری ایکٹ تو ایسے ہی کر رہی ہو۔۔۔ علیہا نے تیر نشانے پر لگتے دیکھتے کہا تھا۔۔۔ 

دیکھو علیہا یہ ذیادتی ہے تم سے میری محبت تب واضح ہو گی جب میں تمہیں جانے دوں گی۔۔۔۔ 

اذنا نے بھرائی آواز میں کہا تھا۔۔۔ 

تو اور تمہارے نزدیک محبت کی ڈیفینیشن کیا ہے نہیں اگر کوئی نئی بنا لی ہے تو بتا دو۔۔۔ محبت تو یہی ہوتی ہے کے آپ اپنے محبوب کی ساری باتیں مانو اس کے دکھ میں سکھ میں اس کا ساتھ دو۔۔۔۔ 

اس نے بیگ کی زپ بند کرتے اس کو پیچھے کاندھوں پر ڈالا تھا اور پھر اپنے گھنگھریالے بالوں کو ڈھیلے سے جوڑے میں باندھتے سر پر کیپ پہنی تھی۔۔۔ یعنی اس کی تیاری مکمل تھی۔۔۔ 

تو محبت تو تم بھی مجھ سے کرتی ہو پھر مجھے ہر بار مشکل میں کیوں ڈال کر جاتی ہو ہر بار نیا جھوٹ بولنا پڑتا ہے مجھے اس کے آنسو لڑھک کر گالوں پر بہے تھے۔۔۔ 

علیہا نے سامنے کھڑی نازک سی لڑکی کو دیکھا تھا جس میں جان نا ہونے کے برابر تھی۔۔۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ اس قدر تھی کے کوئی انگلی لگائے تو نیچے گر جائے سفید دھمکتا ہوا رنگ چھوٹی چھوٹی آنکھیں اور چھوٹی سے تیکھی ناک جس میں نوز رنگ پہنی ہوئی تھی اور جو شاید اس لڑکی کے لیے بنائی گئی تھی۔۔۔ ہاں البتہ ابھی اس کی ناک اور آنکھیں دونوں سرخ ہو رہی تھیں رونے کی وجہ سے۔۔۔وہ دو قدم چلتی ہوئی اس کے پاس آئی تھی۔۔۔ 

یہ تم سے کس نے کہا کے میں تم سے محبت کرتی ہوں علیہا اذہان حیات ملک کو محبت کرنے کے لیے نہیں بنایا گیا۔۔۔ ویل بائے بائے مس ڈگڈگ۔۔۔۔  

اس نے اس کے لمبے بالوں کی لٹ کھینچتے کہا تھا اور کھڑکھی سے باہر چھلانگ لگائی تھی۔۔۔۔ 

م۔۔۔م۔۔مگر ع۔۔۔علیہا۔۔۔۔ اس کے باقی کے لفظ منہ میں ہی رہ گئے تھے اور وہ چھلاوے کی طرح پھدکتی گیٹ سے باہر تھی یہ آخری بار اس نے اسے گیٹ سے کھودتے دیکھا تھا۔۔۔ اپنی گنہگار آنکھوں سے۔۔۔ 

ابھی وہ کھڑکھی سے پلٹی ہی تھی کے اس کے موبائل پر میسج ٹون رنگ ہوئی تھی۔۔۔ سکرین پر دانیہ کا نام جگمگا رہا تھا۔۔۔ 

یااللہ خیر کہیں دانیہ بھی تو علیہا کے ساتھ نہیں۔۔۔ اس نے اپنی سوچیں سوچتے کانپتے ہاتھوں سے میسج اوپن کیا تھا۔۔۔ 

اذنا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے میں علیہا کا پورا خیال رکھوں گی۔۔۔ ہم گھر جلد واپس آہ جائیں گے تم سب سنبھال لینا۔۔۔ لو یو بائے۔۔۔۔ 

میسج پڑھ کر اس کی حالت مرنے والی ہو گئی تھی۔۔ ایک کے بکھیرے کو سمیٹتی کے دوسرے کے اسے کچھ سمجھ نہیں آہ رہا تھا۔۔۔ 

اذنا سبحان جعفر تم تو گئی آج۔۔۔۔۔ اس نے اپنا لب  کاٹتے بیڈ پر بیٹھتے سر کو گھٹنوں میں د یتے روتے ہوئے کہا تھا۔۔۔۔ 

ابھی وہ کوئی نیا بہانہ سوچ رہی تھی روتے ہوئے کے گھر والوں کو کیا بتانا ہے تب ہی دروازے پر زور زور سے دستک دی تھی کسی نے۔۔۔۔ 

خوف کے مارے اس کی جان حلق تک پہنچی تھی۔۔۔۔ 

ک۔۔۔ک۔۔۔کون۔۔۔ اس نے خود پر قابو پاتے پوچھا تھا۔۔ 

💜💜💜💜💜💜💜 

دیکھ رہے ہیں آپ پاپا بھائی نہیں آئے تھے اور میں ایمان اذلان حیدر شاہ کالج کے باہر دھوپ میں کھڑی رہی نا ڈرائیور آیا اور نا بھائی بلکہ کوئی بھائی بھی نہیں آیا لینے۔۔۔۔ 

ایمان نے سرخ دھوپ سے تپتے چہرے کے ساتھ ٹیبل پر بیگ رکھتے کہا تھا۔۔۔۔ 

کیا مطلب ضارب تم لینے نہیں گئے تھے کالج ایمان کو۔۔۔۔ 

اذلان نے گھورتی نظروں سے دیکھا تھا سامنے بیٹھے ضارب اور اس کی فوج کو۔۔۔ 

ہمیں مت گھوریں ماموں یہ ضارب نے کہا تھا کے ایمان گھر آہ گئی ہے۔۔۔۔ 

راکب اور ریعان نے بیک وقت کہا تھا۔۔۔۔ 

ان کا جواب سن کر اذلان کو مزید غصہ آیا تھا۔۔۔۔ 

اس کی بعد میں خبر لیتا ہوں پہلے بلاؤ ڈرائیور کو وہ کہاں تھا اس کو نہیں معلوم اس کی زمہ داریاں کیا ہیں۔۔۔۔ 

اذلان نے ایمان کو گلے سے لگاتے ہوئے کہا تھا۔۔۔ جو اب رو رہی تھی۔۔۔۔ 

اسے میں نے منع کیا تھا اسے لانے سے ضارب نے چمچ پلیٹ میں پٹختے ہوئے کہا تھا۔۔۔ 

تم ہوش میں تو ہو ضارب کیا بچپنا ہے یہ کیا کرتے پھر رہے ہو اپنی بہن کو بیچ سڑک پر تنہا چھوڑ کر تم گھر بیٹھے آرام سے کھانا کھا رہے ہو تپتی دوپہر ہے کچھ ہو جاتا کوئی لے جاتا تو۔۔۔ 

اب کی بار فجر غصے سے بھڑکی تھی اس پر۔۔۔۔ 

تو اچھا تھا ناں لے جاتے بلکل ویسے ہی جیسے ہمیں یہ ملی تھی۔۔۔ اور خبردار جو اس کو میری بہن کہا آپ نے ایسی ہوتی ہیں بہنیں۔۔۔ بہنیں وہ ہوتی ہیں جو خونی ہوتی ہیں۔۔۔ میری طرف سے آپ چاہے اس کے ساتھ میرا نکاح۔۔۔۔ 

چٹاخ۔۔۔۔۔ اس کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی اذلان نے پوری شدت سے اس کے منہ پر تھپڑ رسید کیا تھا۔۔۔۔ کے اس نے بے یقینی سے اپنے باپ کی طرف دیکھا تھا۔۔۔۔ اور پھر ماں کی طرف جس نے نظریں جھکا لیں تھیں۔۔۔ 

ماما ۔۔۔۔ اس نے اپنی ماں کی طرف دیکھا تھا۔۔۔۔ 

ش۔۔۔۔شرم۔۔۔۔ آنی چاہیے تمہیں ایسی اخلاق سے گری ہوئی بات کرتے ہوئے۔۔۔۔ 

فجر نے ٹرانس کی کیفیت میں کہا تھا۔۔۔۔  

شرم تو آپ سب کو آئے گی جس دن میں اسے کسی قابل نہیں چھوڑوں گا آج میں پہلی اور آخری بار آپ سب سے کہہ رہا ہوں کے دفعہ کریں اسے ہماری زندگیوں سے ورنہ اس گھر سے بہت جلد ایک جنازہ اٹھے گا اس نے پوری شدت سے پلیٹ ایمان کے پاؤں کی طرف پھینکتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔ اور جانے کے لیے مڑا تھا۔۔۔ 

ایک نہیں دو جنازے ایک  ایمان بنت اذلان اور دوسرا اذلان ابن حیدر شاہ۔۔۔۔ اذلان نے ایمان کے آنسو صاف کرتے کہا تھا اور اسے سینے سے لگایا تھا۔۔۔۔جو ڈر کے مارے اذلان کا کالر پکڑے خوف سے کانپ رہی تھی۔۔۔۔ 

ضارب ضارب۔۔۔۔ ریعان اور راکب دونوں اس کے پیچھے اس کے روم میں گئے تھے۔۔۔۔ فجر یک ٹک کھڑی باپ اور بیٹے کو ایک بار پھر سے آمنے سامنے کھڑے دیکھ رہی تھی وہ بھی اس لڑکی کی وجہ سے جس نے باپ اور بیٹے کو جدا کر دیا تھا شاید سالوں پہلے۔۔۔۔ 

ریلیکس بابا کی جان بابا ہیں ناں آپ کے ساتھ ساری دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے بابا اکیلے اپنی چھوٹی سی جان کے ساتھ میلوں چلنے کے لیے تیار ہیں کبھی بھی ہاتھ نا چھوڑنے کے لیے۔۔۔۔ اذلان نے اس کے ماتھے پر بوسا دیتے کہا تھا۔۔۔۔ 

ب۔۔۔ابا ب۔۔ھائی کیا واقع مجھے کس۔۔سی قابل۔۔۔ اس نے کانپتے لفظوں سے ہچکیاں لیتے کہا تھا۔۔۔۔ 

 اذلان اور فجر نے ایک ساتھ اس کی طرف دیکھا تھا۔۔۔ اس کی آنکھوں میں ایک درد تھا۔۔۔ آسودگی تھی۔۔۔۔ کرچیاں تھیں جو ایک  پل میں دل دہلانے کا حوصلہ رکھتیں تھیں۔۔۔ بھورے بالوں والی بلو آنکھوں والی سفید مومی گڑیا کے لفظوں نے ایک لمحے میں دونوں کا دل جھنجھوڑ دیا تھا۔۔۔ کہیں سے بھی وہ ان دونوں کا عکس کہاں لگتی تھی۔۔۔ مگر ہاں رشتہ تو تھا اس کا گہرا اذلان حیدر شاہ سے مگر رشتہ تھا تو کیا؟؟؟ 

فجر نے چھبتی نظروں سے اذلان کو دیکھا تھا اور پھر وہاں سے چلی گئی تھی۔۔۔  

ایمان نے ڈبدباتی آنکھوں سے ماں کے مڑتے قدم دیکھے تھے۔۔۔۔ دل میں ا یک بے درد سی ہوک اٹھی تھی۔۔۔۔ قدم پل میں بے جان ہوئے تھے۔۔۔۔۔ 

ایمان تم فریش ہو جاؤ پھر دونوں کھانا کھاتے ہیں بابا نے بھی نہیں کھایا ہممممم۔۔۔۔ اذلان نے اس کے ماتھے پر لب رکھتے کہا تھا۔۔۔ 

اور وہ سر اثبات میں ہلاتی من من کے بھاری قدم اٹھاتی اپنے کمرے کی طرف چل دی تھی۔۔۔۔ 

مگر ضارب کے کمرے کے پاس سے گزرتے اس کے لفظوں نے اسے پل بھر میں روک دیا تھا۔۔۔۔ 

نہیں ہے وہ میری بہن تمہیں پیاری ہے نا تو لے جاؤ یا کسی کتے کے آگے ڈال دو بچپن سے زندگی برباد کر کے رکھ دی ہے اس لڑکی نے میری۔۔۔ مگر اب مزید نہیں ایسی جگہ لے جا کر اس کے ٹکڑے کروں گا کے لاش تک نہیں ملے گی اس کی۔۔۔ پھر چاہے کوئی بھیڑیا کھائے یا پھر کوئی انسان۔۔۔۔ آئی ڈونٹ کئیر۔۔۔۔ 

اس نے پھنکارتے ہوئے کہا تھا۔۔۔ 

انسانیت نام کی چیز ہے ضارب تم میں راکب چلایا تھا اس کی بکواس پر۔۔۔۔  

جبکہ ایمان  اتنے لفظ سن کر پیچھے جاتی ریلنگ سے ٹکرائی تھی اور پھر آنکھوں کے آگے اندھیرا آتے ہی نیچے گرتی سیڑھیوں کے پاس سے ہوتی ہوئی اتنی ساری سیڑھیوں سے لہراتی نیچے گری تھی۔۔۔۔ 

سر زمین سے ٹکرایا تھا اور اردگرد خون جمع ہوا تھا۔۔۔۔  

یار چھوڑ دو اسے اس کے حال پر وہ بیچاری کسی کو کچھ نہیں کہتی ایک کمرے میں پڑی رہتی ہے کبھی کوئی فرمائش کوئی ضد کی اس نے کسی کے ساتھ۔۔۔۔ کبھی ہم نے اسے کسی سے لڑتے کسی سے غصہ کرتے نہیں دیکھا اتنی پیاری اور معصوم سی تو ہے اور پھر یار ماموں کی زمہ داری بھی تو ہے جیسے تم ہو ویسے ہی وہ بھی ان کی بیٹی۔۔۔ 

ان عف از آن عف۔۔۔ میرے سامنے وکالت کرنے کھڑے ہو تم دونوں وہ بھی اس لڑکی کی جس کا وجود میں سرے سے ہی نہیں مانتا۔۔۔ 

نکلو یہاں سے اور بہتر ہو گا کے میرے سامنے اگلے کچھ دن تک مت آنا۔۔۔ ریعان کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی ضارب نے دونوں کا بازو پکڑتے انہیں کمرے سے نکالا تھا۔۔۔۔ 

اور اس سے پہلے کے وہ دروازہ بند کرتا اس کے کانوں میں اپنے باپ کی چنگھاڑتی ہوئی آواز پڑی تھی۔۔۔۔ 

ایمان۔۔۔ اذلان ہاتھ میں کھانے کی ٹرے لیے سامنے سے آتا چلایا تھا۔۔۔۔ ٹرے ہاتھوں سے دور جا گری تھی۔۔۔ راکب اور ریعان بھی ایک جست میں نیچے اترے تھے ۔۔۔۔ اور ایمان کو پکارا تھا ۔۔۔ 

ضارب نے اوپر کھڑے ایک تلخ مسکراتی نظر نیچے پڑے خون سے لت پت وجود پر ڈالی تھی۔۔۔۔ اور اپنے کمرے میں بند ہوا تھا ۔۔۔۔ 

اس کو نہیں معلوم ایمان کو کب ہوسپٹل لے کر جایا گیا کب اس کے گھر والے اس کے ساتھ گئے۔۔۔۔ 

کمرے میں آتے ہی اس نے شاور لیا تھا اپنے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے اور پھر بستر پر آہ کر لیٹا تھا۔۔۔۔ موبائل پر تیز آواز میں میوزک لگاتے اس نے آنکھیں بند کر لیں تھیں وہ اب پر سکون تھا بے حد پر سکون۔۔۔۔ 

💜💜💜💜💜💜💜💜 

کسی سہمی آشنائی کی الفت میں ڈوب کر خود کی بے خودی کو ذندہ کر کے غیرت کے نوالے کھانا ہی تو اصل زندگی کی خوبصورتی ہے دل ربا۔۔۔۔ 

اس نے ہیوی بائیک کی اسپیڈ بڑھاتے ہوئے کہا تھا۔۔۔۔ 

یہ سستی عاشقی کے ڈائیلوگ چھوڑ کر اس کی اسپیڈ کم کر دو ہم نے پشاور جانا ہے مریخ پر نہیں جو اسے ہواؤں میں اڑا رہی ہو۔۔۔۔ یہ نا ہو کے دلہن بننے سے پہلے ہی مجھے بھی اپنےساتھ جہنم میں جلاؤ۔۔۔۔ 

دانیہ نے اونچی آواز میں کہا تھا۔۔۔۔ 

جانے من شادی بھی رچائیں گے اور سہاگ رات بھی منائیں گے تم بس سائیڈ ایفیکٹ دیکھنا علیہا نے مسکراتے ہوئے کہا تھا۔۔۔ 

شرم تو نہیں آتی ایک جوان جہان لڑکی سے بے غیرتی کی باتیں کرتے مجھ معصوم کو خراب کرنے کی وجہ سے تمہارا جہنم میں ایک الگ درجہ قائم ہو گا۔۔۔۔ 

دانیہ نے منہ بسورتے ہوئے کہا تھا۔۔۔۔ 

جی جی بلکل اس سے اوپر والے درجے میں تم بھی حساب دے رہی ہو گی۔۔۔ شریف النفس مخلوق ۔۔۔ علیہا نے بائیک کی اسپیڈ بڑھاتے ہوئے کہا تھا۔۔۔۔ 

تم نا بے موت مرو گی کسی دن لکھوا لو مجھ سے دانیہ نے دانت کچکاتے کہا تھا۔۔۔۔ 

رئیلی فور یور کائنڈ انفارمیشن ڈئیر کزن جو جان ہتھیلی پر لے کر پھرتے ہوں ناں ان کو موت سے ڈر نہیں لگتا۔۔۔ اٹھلاتے ہوئے کہا تھاعلیہا نے۔۔۔۔ 

ویسے اس وقت تو اذنا بے چاری پر ترس آہ رہا ہے رہ رہ کر بے چاری خوف سے مر رہی ہو گی۔۔۔۔ علیہا نے افسوس سے کہا تھا۔۔۔۔ 

خوف سے مر چکی ہوتی وہ اگر تم اسے یہ بتا کر آتی کے اپنے نکاح کے چھوارے اسے واپسی پر کھلاؤ گی۔۔۔۔ ہائے میری بہن بیچاری۔۔۔۔ دانیہ نے افسوس سے کہا تھا۔۔۔۔ 

اتنا افسوس تھا تو آئی کیوں رہتی اس روندو فلم کے ساتھ۔۔۔۔ اذنا سبحان جعفر زندگی میں بس ایک ہی خوبصورت کام ہے جس کو۔۔۔۔ سوائے رونے کا اور دوسری دانیہ سبحان جعفر جس کو بک بک کرنے کے سوا کچھ آتا نہیں۔۔۔۔ دریا کے پل پر بائیک چڑھاتے اس نے بائیک کی اسپیڈ سلو کرتے کہا تھا۔۔۔۔ 

رہنے دو تم خود تو پھول جھڑتے ہیں چہرہ روشن سے تمہارے اس لیے ساتھ آئی ہوں کے کل کو اذہان ماموں کو بتا سکوں کے دلہن کی طرف سے میں شریک تھی گواہی میں اور ویسے بھی کوئی اپنی بہن کو اس کی اتنی بڑی خوشی میں اکیلا کب چھوڑ سکتا ہے۔۔۔ 

اس نے اس کو پیچھے سے ہگ میں لیتے کہا تھا ۔۔۔ 

علیہا نے ایک پر سکون سانس ہوا کے سپرد کیا تھا۔۔۔ زندگی میں اپنوں کا ہونا اور پھر مشکل وقت میں ساتھ ہونا کتنا معنی رکھتا ہے وہ جان چکی تھی۔۔۔۔  

💜💜💜💜💜💜💜💜 

اذنا نے ڈرتے ڈرتے دروازہ کھولا تھا۔۔۔۔ سامنے نشرح کھڑی تھی۔۔۔۔ 

ج۔۔۔ج۔۔جی ماما ک۔۔۔کچھ چاہیے تھا آپ کو۔۔۔ اس نے سہمے لہجے میں خود پر قابو پاتے پوچھا تھا۔۔۔ 

کہاں ہے وہ پٹاخا۔۔۔ آج نہیں بچے گی میرے ہاتھوں سے۔۔۔ نکالو باہر اسے۔۔۔۔ 

نشرح نے کمرے میں ادھر ادھر دیکھتے پوچھا تھا۔۔۔۔ 

اد۔۔۔اد۔۔۔ادھر نہیں ہے وہ۔۔۔ ک۔۔۔کیا ہوا کیا کیا اس نے۔۔۔ اذنا نے انگلیاں مڑوڑتے کہا تھا۔۔۔۔ 

تمہیں کیا ہوا ہے اتنی پزل کیوں ہو سب خیریت ہے ناں۔۔ نشرح نے غور سے اس کو دیکھتے پوچھا تھا۔۔۔۔ 

نہیں ماما بس سر میں درد ہے سونے جا رہی تھی دانیہ نے کیا کیا ہے۔۔۔۔ اس نے بہانہ بناتے پوچھا تھا۔۔۔۔ 

پروفیسر جبین کی کال آئی ہے سر خوشاب کی طرف سے لو لیٹر لکھ کر ان کے بیگ میں رکھ کر آئی ہے اور ان کے شوہر نے پڑھ لیا ہے وہ۔۔۔ کہہ رہیں ہیں کے کل سے وہ کالج نا آئے تو بہتر ہے اس لڑکی نے کوئی ریکارڈ نہیں توڑنا مجھے ذلیل کروانے کا۔۔۔ 

نشرح نے سر پکڑتے ہوئے کہا تھا۔۔۔۔ 

ماما پروفیسر جبین بھی تو بات بے بات اسے ڈانٹتیں رہتیں ہیں کبھی کلاس سے باہر نکال دیا کبھی کچھ تو کبھی کچھ۔۔۔۔ پھر اس نے بھی غصے میں آہ کر چھوٹی سے شرارت کر دی آپ پریشان نا ہوں میں سنبھال لوں گی صبح ایکسکیوز کر۔۔۔۔ 

ایکسکیوز ان کا رشتہ خسارے میں پڑھ گیا ہے اور تم کہہ رہی ہو ایکسکیوز۔۔۔۔ بات شاید ا یکسکیوز تک نہیں رہ گئی اس کا شوہر اسے طلاق دینے کی بات کر رہا ہے۔۔۔ نشرخ نے چیختے ہوئے کہا تھا۔۔۔۔ 

تب ہی پاس سے گزرتا افنان رکا تھا وہاں۔۔۔۔ اس سے پہلے وہ کچھ پوچھتا اذنا بول پڑی تھی۔۔۔ 

آئی ایم سوری ماما مگر اگر شادی کے ا تنے سالوں بعد بھی ان دونوں کے رشتے میں اتنی بے اعتباری ہے کے کسی سٹوڈنٹ کی اتنی چھوٹی سے شرارت پر وہ اپنا رشتہ ختم کر رہے ہیں تو اس رشتے کو ختم ہو جانا چاہیے۔۔۔۔ پھر تو پروفیسر جبین بلکل ان جیسا ہسبنڈ ڈیزرو نہیں کرتیں۔۔۔ جن کو اپنی بیوی پر اعتبار نہیں اور۔۔۔ 

چپ کرو تم آج کل کی نئی نسل کے لاجک سن لو غضب خدا کا کسی کا گھر داؤ پر لگا ہے اور یہ یہاں مجھے فلسفے پڑھا رہیں ہیں یک نا شد دو شد۔۔۔ اس پٹاخہ کو تو میں نہیں چھوڑنے والی کسی صورت بھی۔۔۔۔ 

پھوپھو ریلیکس۔۔۔۔ ادھر آئیں۔۔۔۔ افنان نے پاس جاتے نشرح کو کاندھوں سے پکڑ کر صوفے پر بٹھایا تھا۔۔۔۔ اور اذنا کو کن اکھیوں سے دیکھا تھا۔۔۔ جو شاید اسے دیکھ لیتی تو کبھی اتنا بھی نہیں بول پاتی۔۔۔ وہ لڑکی جو دو سے تین لفظوں پر بات کرنے کی عادی تھی اسے محبت اور اس کے رشتے کی پچیدگی کے بارے میں بات کرتے دیکھ اسے تھوڑا سا دھچکا لگا تھا۔۔۔۔ 

مگر ان کے باہر جاتے ہی اذنا نے دروازہ بند کر لیا تھا۔۔۔۔ 

یہ اس وقت یہاں کیا کر رہا تھا۔۔۔ اپنے دھڑکتے دل پر ہاتھ رکھتے اس نے بیڈ پر ڈھیر ہوتے سوچا تھا۔۔۔۔ 

پھوپھو کیوں اپنا بی پی بڑھا رہی ہیں میں بات کرتا ہوں اس پٹاخہ سے کہاں ہے وہ آئیں میرے ساتھ۔۔۔ وہ انہیں لے کر ان کے کمرے کی طرف بڑھا تھا۔۔۔۔ 

مگر راستے میں نشرح علیہا کے کمرے کے پاس رک گئی تھی۔۔۔۔ 

یہاں ہیں دونوں یہ ان دونوں کی ملی بھگت ہے ایک وہ لیڈی ڈاؤن اور دوسری چھوٹی پٹاخہ۔۔۔۔ دانیہ میں جانتی ہوں تم علیہا کے ساتھ ہو اس کے روم میں کب تک دونوں دروازہ نہیں کھولو گی صبح تم کو ملتی ہوں میں جوتا ہاتھ میں لے کر۔۔۔۔ نشرح نے دروازہ بجاتے ہوئے کہا تھا۔۔۔ اور پھر افنان کے ساتھ اپنے کمرے میں گئی تھی۔۔۔ 

نا اتنی ٹینشن لیا کریں اس عمر میں ہو جاتا ہے یہ سب۔۔۔ اچھا آپ لیٹیں میڈیسن لی تھی آپ نے۔۔۔۔ اس نے نشرح کو بیڈ پر لٹاتے اے سی اون کرتے کہا تھا۔۔۔۔ 

ایک وہ علیہا تھی سب کی جان سب کی خوشی کا خیال رکھنے والی درد رکھنے والی دلوں کو جوڑنے والی۔۔۔ کوئی غم اس کی موجودگی میں غم لگتا ہی نہیں تھی ایسے لگتا تھا جیسے سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔ نشرح نے بھرائی آواز میں آنکھیں بند کرتے علیہا درید کا چہرہ آنکھوں کے سامنے لاتے کہا تھا۔۔۔۔ اس کی آنکھیں نم ہوئیں تھیں۔۔۔۔ 

ایک یہ علیہا ہے جس نے کبھی کسی کی خوشی کی اپنی خوشی کے آگے پرواہ ہی نہیں کی۔۔۔۔ کاش رب اس جیسی شکل نہ دیتا مگر دل دے دیتا اس جیسا اسے۔۔۔۔ ایک ہوک سے اٹھی تھی نشرح کے دل میں اسے سوچتے ہوئے۔۔ 

سب کچھ زندگی میں مل جائے یہ ممکن تو نہیں ہے اور پھر پھوپھو ہر انسان کا نقطعہ نظر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت دل احساسات ایک جیسے نہیں ہوتے ہمیں کسی بھی انسان کا کسی دوسرے انسان سے موازنہ کرنے سے پہلے یہ سوچنا چاہیے۔۔۔۔ خیر فکر مت کریں آنکھیں بند کریں اور سو جائیں اور اس پٹاخہ کی فکر مت کریں ابھی تو میری نائٹ ڈیوٹی ہے میں جا رہا ہوں صبح تفصیل سے بات کروں گا دونوں سے۔۔۔۔ 

اس نے نشرح کے ماتھے پر لب رکھتے کہا تھا اور پھر لائٹ اوف کرتا کمرے کا دروازہ بند کرتا نکلا تھا وہاں سے۔۔۔۔ 

💜💜💜💜💜💜💜💜💜 

صبح ہونے سے پہلے تم دونوں مجھے گھر پر موجود ملو ورنہ آگے جو ہو گا اس کی زمہ داری میری نہیں اور یہ پروفیسر جبین والا جو گند بکھیر کر گئی ہو اسے بھی سمیٹنا آہ کر۔۔۔۔ جینا حرام کیا ہوا ہے تم دونوں نے میرا۔۔۔۔ غصے والے ایموجیز ساتھ لگاتے اذنا نے میسج سینڈ کیا تھا دانیہ کو۔۔۔۔ جسے وہ اب صبح کے سات بجے پڑھ رہی تھی۔۔۔ 

لو جی زہر اگل دیا پروفیسر جبین نے میرے خلاف سوری پرنسز آج شام تک واپسی ممکن ہے ایک سرپرائز کے ساتھ صبح تک تو نہیں ویسے مبارک ہو بہن کے نکاح کی۔۔۔ باقی تفصیل گھر پہنچ کر بتاؤں گی۔۔۔ 

دانیہ نے میسج ٹائپ کر کے ایک بھرپور قہقہ لگایا تھا اور موبائل کو سوئچ اوف کر کے بیگ میں رکھا تھا۔۔۔ 

تب ہی سامنے کھڑا لمبی لمبی مونچھوں والا شخص اسے گھورنے لگا تھا۔۔۔ دانیہ نے اسے دیکھ کر دانت کچکچائے تھے دل کر رہا تھا اس کی آنکھیں نکال کر کنچھے کھیلے مگر خیر بہن کا دیور تھا۔۔۔ عزت دل سے نہیں مگر دے سکتی تھی۔۔۔۔ 

کوچہ تمہارا کمرا سامنے ہے آرام کرو۔۔۔ اس شخص نے سامنے کمرے کی طرف اشارہ کیا تو وہ بیگ سمیت کمرے میں گھسی تھی کمرے کا جائزہ لے کر کھڑکیاں اچھی طرح بند کر کے وہ بیڈ پر دراز ہوئی تھی کمر سے ایک کراہ نکلی تھی اتنے سفر کے بعد وہ تھک گئی تھی۔۔۔۔ تب ہی کمر میں شدید درد ہوا تھا۔۔۔ آنکھیں بند کرتے ہی وہ نیند کی آغوش میں چلی گئی تھی۔۔۔۔ 

وہ گھونگھٹ نکالے انگلیاں مڑوڑتی اس کے آنے کے انتظار میں ہلکان ہوتی گھونگھٹ کی آڑ میں سے بار بار دروازے کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔ 

کے پھر اچانک انتظار ختم ہوا تھا وہ پسٹل ہاتھ میں پکڑے کمرے میں داخل ہوا تھا اسے لمبا گھونگھٹ ڈالے دیکھتے اس کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی اس نے دروازے کو لاک کر کے پسٹل سائیڈ ٹیبل پر رکھی تھی۔۔۔ اور پھر واسکٹ اتار کر اس کے پاس بیٹھا تھا۔۔۔ بہت خوش تھا وہ اس کی محبت اسے مل گئی تھی۔۔۔۔ اس کا نازک ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے اس کا ہاتھ لبوں تک لایا تھا وہ۔۔۔۔

Last words

Hope you like the ishq mann ajizam by mannat shah episode 1

Stay tuned for further updates and let us know about the episode and don’t forget to like mannat shah official fakebook page mannat shha writes

Leave a Comment