Ishq Mann ajizam by mannat shah episode 2

Ishq Mann Ajizam by mannat shah

mannat shah is the exclusive writer of today’s era. she worked with words magically. today we come up with her latest novel Ishq Mann ajizam by mannt shah episode 2

 

قسط۔۔۔2
ک۔۔۔کون ہو تم۔۔۔۔ اس نے ہاتھ پر بنا شیطان کا نشان دیکھا تھا اور اچھل کر دو قدم دور ہوا تھا۔۔۔۔
سامنے بیٹھی لڑکی جوں کی توں بیٹھی تھی نا زرا سی ہلی نا کوئی جنبش۔۔۔۔
اس شخص نے پسٹل پکڑی تھی۔۔۔۔
وہ جان چکا تھا کے وہ کون ہے۔۔۔۔
وہ گھونگھٹ اٹھائے بغیر اس کی ہر حرکت پر نظر رکھے ہوئے تھی۔ جانتی تھی وہ اب کیا کرنے والا ہے۔۔۔۔
کس سے کھیلنے والے ہو تم مجھ سے یا خود سے ۔۔۔ ایک پر اسرار سی آواز اس شخص کے کانوں میں پڑی تھی۔۔۔۔
وانیہ کہاں ہے۔۔۔ اس نے پسٹل کا نشانہ رکھا تھا عین سیدھ پر یعنی گھونگھٹ کے اس پار اس کی کنپٹی کے سامنے۔۔۔۔
میرے جوتے میں بنے نشان میں آؤ دیکھو پکڑو لے لو چھین لو۔۔۔ تم کر سکتے ہو یو ہیو ٹو ڈو اٹ۔۔۔۔ اس نے ایک جھٹکے سے گھونگھٹ ہٹا کر بیڈ سے چھلانگ لگائی تھی۔۔۔۔
سامنے کھڑے شخص کے ہاتھ کانپے تھے۔۔۔۔ وہ ماسک کو پہنے ہوئے تھی جس کے دائیں گال پر شیطان کی کھوپڑی بنی تھی اور بائیں گال پر بھی دونوں کھوپڑیوں کے عین وسط میں کراس کا نشان بنا ہوا تھا۔۔۔۔ ماتھے پر بڑے حروف میں پلے ود ڈیول لکھا ہوا تھا۔۔۔۔ ناک پر بڑا سا سرخ رنگ کا چاند بنا ہوا تھا جس میں سے خون کے چند قطرے نکلتے ہوئے بنائے گئے تھے۔۔۔۔
ہاتھوں کی پشت پر بھی شیطان 😈 کی 💀 کھوپڑیاں اور ان پر کراس بنے ہوئے تھے۔۔۔
جبکہ جوگرز پر واضح حروف میں لکھا ہوا تھا۔۔ عف یو کانٹ پلے ود ڈ یول دین پلے ود مائی انر۔۔۔۔
اس کا حلیہ اس کی آنکھوں کا زعم اس کا حوصلہ وہ کسی شیطان سے کم نہیں تھی۔۔۔۔
ایک چالیس سالہ آدمی جو اپنی بیوی کے ساتھ کچھ حسین پل بتانے آیا تھا۔۔۔ اس کی حالت دیکھ کر پل بھر میں کپکپایا تھا۔۔۔۔
ت۔۔۔۔تم ہر کسی کے ہا تھ سے نکل جاتے ہو آج میں تمہیں جانے نہیں دوں گا آج میں دنیا کو بتاؤں گا کے پلے ود ڈیول کو مار دیا میں نے۔۔۔۔ اس نے ٹرگر پر انگلی رکھتے اسے دبانے کی کوشش کی تھی۔۔۔۔جبکہ ماتھے پر بے شمار بوندیں نمودار تھیں ہاتھ کپکپا رہے تھے۔۔۔۔ مگر اب یا آر تھا یا پار۔۔۔۔
اس کو کر گزرنا تھا۔۔۔ یہی وقت تھا اس کو مار کر دنیا کے سامنے اس کی اصلیت لانے کا۔۔۔
وہ جو خود اس زعم میں جی رہا تھا کے پلے ود ڈیول کوئی نہیں ہے وہ آج اس کے سامنے تھا یا تھی۔۔۔؟؟؟
وہ نہیں جانتا تھا وہ لڑکی ہے یا لڑکا۔۔۔۔؟؟؟
اور اگر وہ لڑکی ہے تو ا یک لڑکی اس کے کمرے میں کیسے آہ سکتی ہے۔۔۔ جبکہ اس وقت تو۔۔۔۔
چلو کوشش کر لو آج تمہیں پورے موقعے ملیں گے لیکن اس کے بعد میرا ایک وار ہو گا بس۔۔۔ اس نے شیطانی ہنسی ہنستے کہا تھا۔۔۔ اس کی ہنسی میں ایک وحشت تھی ایک تاب کاری تھی۔۔۔ گہرا راز تھا۔۔۔۔
سامنے کھڑے شخص نے ٹریگر دبایا تھا۔۔۔۔
اور پسٹل چار ٹکڑوں میں کٹ کر نیچے گری تھی۔۔۔ گولی نہیں نکلی تھی فائر نہیں ہوا تھا۔۔۔۔
اسے یاد تھا جب اس نے پسٹل ٹیبل پر رکھی تھی تو وہ ٹھیک تھی یا پھر اس نے غور نہیں کیا تھا۔۔۔
اوہ ہ ہ ہ۔۔۔۔۔۔ اٹس مسڈ ہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔ وہ پھر سے ہنسی تھی گہری ہنسی اس کی ہنسی میں وحشت تھی جو اس شخص کے دل کو چیر رہی تھی۔۔۔۔
اس شخص نے اسی لمحے اپنے پاؤں کے پاس بندھے لاسٹک میں سے چاقو نکال کر اس پر وار کیا تھا وہ ہر حربہ ہر داؤ پر پیچ جانتی تھی۔۔۔ پاؤں کے جوگر پر اس کا وار لیتے اس نے بجلی کی تیزی سے اس چاقو کا وار اس کے گال پر کیا جو سیدھا اس کے گال پر جا کر چپکا تھا اور گہرا کٹ چھوڑ گیا تھا وہ شخص تکلیف سے کراہ اٹھا تھا۔۔۔ خون بل بل بہہ کر نیچے گر رہا تھا۔۔۔
بہت شوق ہے نا تجھے اپنی بیٹی کی عمر کی لڑکی سے شادی کرنے کا بیٹا پیدا کرنے کا۔۔۔۔ پہلی بیوی کو پیٹ میں بچہ ہونے کے باوجود موت کے گھاٹ اتارنے کا کے اس کے پیٹ میں پہلے سے ایک بیٹی ہے تجھے کیا لگا تھا تجھ سے بڑا کوئی شیطان نہیں ہو گا۔۔۔ آہ دیکھ مجھے مل مجھ سے میں ہوں پلے ود ڈیول جس کی ہستی کو نکالنا مارنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے۔۔۔۔
چل تو بتا تو نکال پایا اپنے اندر کے شیطان کو اپنے اندر کے شیطان کو مار پایا۔۔۔ نفرت۔۔۔۔ نفرت کرنا مشکل ہے مگر مارنا آسان نہیں مارنے کے لیے پہلے نفرت کو کچے گوشت کی طرح کھانا پڑتا ہے خون سمیت۔۔۔۔
وہ چیل کی طرح جھپٹی تھی اس پر شیر کی دھاڑ تھی اس کے لفظوں میں وحشت زدہ سا لہجہ تھا۔۔۔ اس نے ٹانگ دوہری کر کے اس کے پرائیوٹ پارٹ پر پوری شدت سے وار کیا تھا وہ دل دہلا دینے والی چیخ مار کر زمین بوس ہوا تھا۔۔۔
اس نے پسٹل نکالی تھی اس سے پہلے کے دو وار کرتی اس نے باتھ روم سے وانیہ کو نکالا تھا۔۔۔ جو لرز رہی تھی۔۔۔ بے ہوش ہونے کو تھی۔۔۔
کم آن وانیہ کیل ہم۔۔۔ اس نے پسٹل اس لرزتے وجود کے ہاتھ میں پکڑائی تھی۔۔۔
ن۔۔ن۔۔نہیں۔۔۔ وہ مر جائے گا۔۔۔ اس نے خشک ہوتے گلے سے لرزتی آواز میں کہا تھا۔۔۔
نہیں مرے گا مگر اب کبھی جی بھی نہیں سکے گا ۔۔ کم آن ڈیم اٹ تم نہیں چاہتی کے شیطان کے ساتھ کھیلو اسے ختم کرو۔۔۔۔ وہ چیخی تھی اس پر۔۔۔۔
ن۔۔۔ن۔۔۔نہیں مجھے لے جاؤ یہاں سے پلیز وہ ہچکیوں سے رونے لگی تھی تمہیں ہی کرنا ہو گا یہ سب۔۔۔
کیونکہ ہمیں اپنے اندر چھپے شیطان سے۔۔۔ خوف سے خود ہی کھیل کر اسے مات دینی ہو گی۔۔۔ سمجھ رہی ہو۔۔۔ ناؤ شوٹ ہم۔۔۔ وہ پھر سے چلائی تھی۔۔۔۔
وانیہ اگر تم نے مجھے مارا تو تمہارے خاندان کا نام و نشان مٹا دوں گا۔۔۔۔ وہ چیخا تھا وانیہ تھا۔۔۔۔
تبھی کمرے میں ایک پر اسرار سی ہنسی گونجی تھی اس نے وانیہ کے پیچھے آہ کر اس کے ہاتھ میں پسٹل پکڑا کر اس کے پرائیوٹ پارٹ اور دونوں ٹانگوں پر وار کیے تھے۔۔۔۔
آئی ایم سوری وانیہ لیکن یہ تمہیں ہی کرنا تھا۔۔۔ وانیہ کے کانوں میں پر اسرار سی ہنسی گونجی تھی۔۔۔۔
اور وہ اسی لمحے بے ہوش ہوئی تھی۔۔۔۔
اس نے سامنے پڑے شخص کو ٹانگ ماری تھی۔۔۔۔ اور وانیہ کو کاندھوں پر آٹھائے۔۔۔۔ سامنے لگی کھڑکی سے کودی تھی چھلاوے کی طرح۔۔۔

 

mann ajizam

 


کیونکہ اب باہر سے آوازیں اندر آنے لگیں تھی باہر کی بڑھتی چہ مگوئیاں اور مردوں کی آوازیں خطرے کا باعث تھیں۔۔۔۔
وہ اسے کاندھے پر ڈالے۔۔۔۔ چار کلو میٹر تک بھاگی تھی۔۔۔۔ پھر قریب ایک وین کے اندر پھینکتے اس نے اس کے ماں باپ اور چھوٹے بھائی سے کچھ بات کی تھی ایک موبائل چند پیسے اور اس موبائل پر اپنا نمبر نوٹ کر کے وہ ڈرائیور سے کچھ بات کر کے ایک کلو میٹر پیچھے بھاگی تھی اسی رفتار سے۔۔۔ اپنی بائیک کے پاس جہاں دانیہ پہلے سے کھڑی الٹے سیدھے منہ بنا رہی تھی۔۔۔۔
اس نے چھلاوے کی رفتار سے درخت کی اوٹ سے خود کے لباس کو زپ آپ کیا تھا اور کپڑے اتار کر گہری کھائی میں پھینکے تھے۔۔۔ اور بائیک پر آہ کر بیٹھ کر پوری ریس دے کر ہیوی بائیک کا میٹر آخری ریس تک گھما کر اسے سیدھی سڑک پر ڈالا تھا۔۔۔۔
مر گیا دولہا بھائی کچھ دور جا کر دانیہ نے پوچھا تھا۔۔۔
نیم مردہ تھا بیچارہ مگر میں نے کچھ نہیں کیا وہ تو وانیہ نے۔۔۔۔
دانیہ تم جانتی ہو علیہا اذہان حیات ملک تو چیونٹی نہیں مار سکتی۔۔۔۔ اس نے قہقہہ لگایا تھا۔۔۔
دانیہ نے افسوس سے سر ہلایا تھا۔۔
کاش وہ اس لڑکی کے سارے راز سب کو بتا سکتی اس نے دل میں کلس کر سوچا تھا۔۔۔ اور یہ ایک ایسی سوچ تھی جس کے آگے ایک ڈیڈ لائن تھی جو صرف موت کا اشارہ کرتی تھی۔۔۔۔
وانیہ کہاں ہے۔۔۔ دانیہ نے پھر سے سوال کیا تھا۔۔۔
وہاں جہاں اسے ہونا چاہیے تھا۔۔۔ اس نے سامنے ٹوٹی پھوٹی سڑک پر بائیک چڑھاتے کہا تھا۔۔۔۔
تمہیں اپنا وعدہ یاد ہے۔۔۔۔ علیہا نے دانیہ سے پوچھا تھا۔۔
وعدے بھولنے یا توڑنے یا وعدہ خلافی کے لیے نہیں کیے جاتے جب دو لوگ وعدہ کرتے ہیں تو اس سے پہلے وہ اپنے اندر موجود اپنے عہد کو جنجھوڑ کر دیکھتے ہیں کے آیا وہ زندہ ہے یا مر گیا ہے۔۔۔ اگر وہ زندہ ہو تو ہی وعدے کے لیے ہاتھ بڑھایا جاتا ہے۔۔۔
دانیہ نے گہری سوچ میں ڈوبتے کہا تھا۔۔۔۔
ہمممممم۔۔۔۔۔۔ علیہا نے ایک سرد آہ بھری تھی۔۔۔۔
ماموں کو منا لیا تم نے۔۔۔۔ دانیہ نے پوچھا تھا۔۔۔
میرے پاس انہیں منانے کے لیے کوئی خاص وجہ نہیں ہے۔۔۔ علیہا نے ایک ٹرانس کی کیفیت میں کہا تھا۔۔۔
کیا یہ وجہ کافی نہیں کے وہ تمہارے پاپا ہیں اور تم سے۔۔۔۔
وہ صرف افنان کے پاپا ہیں اور اس سے پیار کرتے ہیں یا پھر ان کے اندر اور باہر آدھے حصے میں زرا درید جیتی ہے اور آگلے آدھے حصے میں علیہا درید جیتی ہے۔۔۔۔ اور علیہا اذہان وہ بے ضرر سایہ ہے جس کو کبھی شاید وہ خود بھی نا پہچان سکیں۔۔ اس کی آنکھیں بھر آئیں تھی چھوٹی سی مغرور ناک دھوپ کی روشنی پڑنے سے پسینے سے شرابور اور لال ہوئی تھی۔۔۔۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اذہان حیات ملک کا چہرہ لہرایا تھا۔۔۔۔
اور یہی وہ وقت تھا جب ان دونوں کے بازوؤں پر گولی ہٹ کی تھی۔۔۔ پل پر چڑھتی بائیک ڈگمگائی تھی اور گہری کھائی میں گری تھی۔۔۔۔
💜💜💜💜💜💜💜💜

Meri Shehzadi episode 2 complete story /Ost – Worldnewsfacts

mannat shah fb page

m.facebook.com

go check

meri shehzadi complete story

tinkay ka sahara complete story

Leave a Comment